لیکھنی ناول-22-Oct-2023
تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر7
اپنےکہے کے عین مطابق وہ دعا کو اپنے ساتھ شاپنگ پر لے کے جا رہا تھا ۔۔ وہ نہیں جانا چاہتی تھیی۔۔ لیکن ماما نے اصرار کر کے اس کے ساتھ بھیج ہی دم لیا ۔ سارے راستے وہ کچھ نہ کچھ بولتا رہا۔۔ لیکن دعا ایک لفظ بھی نہ بولی ۔ یار دعا چھوڑ دو اب یہ ناراضگی چلو ہم دوستی کر لیتے ہیں۔۔ اور ویسے بھی ہم نے رات کو ایک دوسرے کو سوری بول تو دیا ہے ۔۔ تو اب ایسے ناراض ہونے کا کیا فائدہ۔۔؟ مصطفٰی اسے باتوں میں بہلانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ لیکن دعا کو اس کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ شاپنگ مال میں بھی وہ کچھ نہ بولی مصطفیٰ نے دعاکی ساری شاپنگ اپنی مرضی سے کی ۔۔ دعاسے رائے لینے کی کوشش کرتا رہا لیکن دعا نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا ۔۔ دعا یار اس دنیا میں صرف تمہاری شادی نہیں ہورہی کہ تم اس طرح سے منہ بنا کے بیٹھی ہو ۔۔مصطفیٰ کو اب اس پر غصہ آ رہا تھا ۔۔۔ لیکن نکال کے اسے مزید خود سے بد گمان نہیں کر سکتا تھا ۔۔ پھر آئی ویڈنگ ڈریس کے باری ۔چلو سب میری پسند کا ہے ویڈنگ ڈریس تم خود پسند کرو اور اچھا سا ریڈ کلر کا اس پر بھی حکم دعا نے اسے گھورا ۔ سب کچھ آپ نے اپنی مرضی سے لیا ہے تو یہ بھی لے لیں اس میں بھی میری مرضی جانے کی ضرورت نہیں ہے دعا نے غصے سے کہہ کر منہ پھیر لیا ۔ اچھا بابا میں کچھ نہیں کہتا تم اپنی مرضی سے لے لو تمہیں جو پسند ہے میں کچھ نہیں کہوں گا ۔مصطفی ایک سائیڈ ہوگیا ۔۔۔ جبکہ دعا اپنے لئے ویڈنگ ڈریس پسند کرنے لگی۔ ۔جہاں ریڈ کلر ڈریس ایک سے ایک عمدہ تھے لیکن وہ مصطفی کی پسند کو اہمیت نہیں دینا چاہتی تھی ۔بہت کوشش کے باوجود بھی اسے ریڈ کے علاوہ اور کوئی ڈریس پسند نہ آیا ۔ مصطفی جو پچھلے آدھے گھنٹے سے بیٹھا اسے دیکھے جا رہا تھا اخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔۔ بس دعا یار اب ہر چیز تمہاری پسند کی تو نہیں ہو سکتی نا کچھ چیزوں پہ کمپرومائز کرنا چاہیے مصطفیٰ نے سمجھانا چاہا ۔۔ کچھچیزیں اگر آپ کو پتہ ہو مصطفی صاحب تو مجھے تو میری پسند کا دولہا بھی نہیں ملا اور آپ ہر چیز کی بات کر رہے ہیں۔ہاں شاید مجھے ہر چیز پے کمپرومائز کرنا پڑے گا ۔ دعا نے ایک ایک لفظ چھبا چھبا کر کہا چہرے پر تلخ مسکراہٹ سجا کر اس نے جتایا تھا کہ مصطفیٰ اس کی پسند نہیں ۔ بس بہت ہو ا ۔بہت سن لیا میں نے اور بہت سنا لیا تم نے مصطفی نے کونٹر پہ کھڑے ہو کر ڈریس سیلز مین کی طرف پھینکا اسے پیک کرو ۔ لیکن وہ مجھے پسند نہیں ہے دعا نے اسے دیکھ کر بے بسی سے کہا ۔ تم اس لائق ہی نہیں ہو کہ تم سے تمہاری پسند پوچھی جائے ۔ اسے امید نہیں تھی کہ سب کچھ اتنا جلدی جلدی ہو جائے گا ابھی کل ہی تو اس کی شادی کے بات شروع ہوئی تھی اور آج اس کی مہندی ۔یہ سب کچھ کیا ہورہا تھا دعا نے اپنی شادی کے بارے میں کبھی ایسا تو نہیں سوچا تھا ۔۔۔ وہ سمجھ سکتی تھی کہ یہ سب کچھ تایا ابو کی طبیعت کو مدنظر رکھ کر کیا جا رہا ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی اتنی جلدی کی امید نہ تھی دعا کو ۔۔۔ll زعیمہ نے اپنے وعدے کے مطابق اسے مہندی کی دلہن بنایا تھا ۔ ۔زعیمہ اور سعدیہ کے سامنے وہ خوش ظاہر ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن سعدیہ نے پھر بھی اس کی چوری پکڑ لی ۔ نہیں سعدیہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تایا ابو کی طبیعت خراب ہے نا اس لیے پریشان ہوں ۔اس نے بات ٹالنے والے انداز میں کہا ۔۔ لیکن پھر بھی یار پوز اچھے سے بنانا یہ نہ ہو کہ دس سال بعد اپنی شادی کی البم دیکھو اور افسوس کرو ۔زعیمہ نے اس کو خوش کرنے کے لیے کہا ۔تو وہ بھی ہس دی کیونکہ وہ اپنی پریشانی میں اپنی پیاری سہیلیوں کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتی تھی ۔ تجھے پتا ہے میں نے لونگ لاچی والے گانے پے سٹیپ بائی سٹیپ ڈانس سیکھی ہے ۔۔۔ سعدیہ نے خوش ہوکر بتایا ۔ میں نے آنٹی کو کہہ دیا ہے کہ مٹھائیوں کا سارا کام میں کرونگی ۔خاض کے کر جلیبیوں کا ۔زعیمہ نے ہو نٹوں پر زبان پھیر تے ہوئے کہا ۔ ہائے موٹی کبھی تو کھانے پینے کی چیزوں کو چھوڑ کر کچھ سوچ لیا کر سعدیہ نے دھائی دی۔ چلو اٹھو لڑکیوں اسے لے کر باہر آؤ ابھی تھوڑی دیر میں رسم شروع ہونے والی ہے ۔ماما نے آکر اس کے ہنستے کھیلتے چہرے پر اداسی پھیلا دیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہی گھر میں ہونے کی وجہ سے دلہا اور دلہن کی رسم اکٹھی کی گئی ۔ سب کے چہروں پر خوشی تھی خاص کرکے تایا ابو تو خوشی سے ناچ رہے تھے ۔دعا خوش تھی کیونکہ اس کی وجہ سے اس کے تایا ابو خوش تھے ۔رسم کے بعد سعدیہ اور زعمیہ نے لونگ لاچی سونگ پر وہ ڈومکے لگائے کے آنے والے دس سال میں بھی یہ مہندی کی رات یاد رہے گی ۔ کیونکہ زعیمہ نے سعدیہ کی ساری ڈانس کا بیڑا غرق کر دیا تھا پھر بدلے میں ۔ڈانس کے دوران سعدیہ نے زعیمہ کی وہ درگت بنائی کی زعیمہ مرتے دم تک نہ بھولتی ۔ بہت بڑی غلطی ہو گئی جو تجھے پارٹنر رکھ لیا میں نے۔ دعا تجھے سے اچھی ڈانس کرتی ہے ۔سعدیہ کو اپنی ڈانس خراب ہونے کا بہت افسوس تھا ۔ ہاں تو اسی کو اٹھا لیتی ۔ میری مینتں کیوں کر رہی تھی رسم ختم ہونے بعد دعا اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی تو مصطفیٰ نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیا سب نے ڈانس کی یار دولہا دلہن تو کچھ کیا ہی نہیں چلو اب ہماری باری مصطفی اسے زبردستی اپنے ساتھ ڈانس فلور پر لے کے آیا اور سب کے ساتھ مل کر ڈانس کرنے لگا ۔ میں نے سنا ہے کہ تم بہت اچھی بات کرتی ہو۔مجھے دیکھنا ہے ۔یقیناً جب سعدیہ اور زعیمہ بات کر رہی تھی تب اس کا دھیان اسی طرف تھا مصطفی مسکرا مسکرا کر اس کے ساتھ ڈانس کر رہا ہے جبکہ دعا کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے ہونٹوں سے ہنسی نچور کا سوکھنے کے لیے ڈال دے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہی سب کچھ برداشت کرو ۔اس طرح سے تو مجھے بالکل اپنا غلام سمجھ لے گا مجھے اس طرح سے چپ نہیں رہنا چاہیے ہاں اپنے حق میں آواز اٹھانی چاہیے لیکن میری آواز میری ماما بابا سنی ہی نہیں ۔ کوئی بات نہیں مصطفی منا لو اپنی خوشیاں ۔ تم مجھ سے بدلہ لینے کے لیے شادی کر رہے ہو اب تم دیکھنا کہ شادی کے بعد میں تمہارا کیا حال کرتی ہوں ساری زندگی یہ شادی یاد نہ رہی تو میرا نام بھی دعا نہیں ۔ تو ابھی مصطفی کو تنگ کرنے کے منصوبے بنانے لگیں کیونکہ اس نے سوچ لیا تھا کی زندگی میں شادی ایک بار ہونی ہے اس لئے منہ بنا کر بیٹھنے سے اپنی شادی کا البم نہیں خراب کرناچاہتی تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ تایا ابو ماما اور پاپا کے سامنے خوش رہنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اداسی سے وہ انہیں تکلیف پہنچا رہی تھی ۔ میں تمہاری وجہ سے اپنے تایا ابو ماما اور بابا کو تکلیف نہیں دوں گی لیکن تمہارا تو میں وہ حال کروں گی کہ زندگی بھر شادی کا نام نہیں لوگے مصطفی اسے اپنے ساتھ کسی فلیٹ میں لایا تھا ۔ جبکہ دعا کو مصطفی کے ارادے کچھ خطرناک لگ رہے تھے ۔ وعصرف ماما بابا اور تایا ابو کے سامنے خوشی کا اظہار کر رہی تھی جبکہ مصطفی کے سامنے اس کا رویہ ایسا ہی تھا ۔ تو پھر وہ ا سے یہاں کیوں لے کے آیا تھا آخر کیا چاہتا تھا وہ یہ سمجھنا دعا کے لئے تھوڑا مشکل تھا ۔ آج کل وہ اس پر کوئی حکم نہیں چلا رہا تھا ۔اور نہ ہی غصہ کر رہا تھا ۔ آپ مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں۔۔؟ رہا نہ گیا تھا پوچھ ہی لیا گھر دکھانے کے لئے اور کیوں ۔۔؟مصطفی اسی کی انداز میں بولا ۔ گھر ۔۔؟ گھر دکھانے کے لئے کیوں لے کے آئے ہیں آپ مجھے ۔۔؟ دعا نہ سمجھی سے پوچھا ۔ کیونکہ ہم شادی کے بعد یہاں رہنے والے ہیں مصطفی نے اس کے عقل پر ماتم کر کے اس کی مشکل آسان کی۔ تو اب اس طرح سے بدلہ لیں گے آپ مجھ سے تاکہ میں گھر میں کسی کو پتا ہی نہیں سکوں ۔ کہ آپ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں چپ چاپ سب برداشت کروں گی تو آپ کی غلط فہمی ہے اگر آپ نے میرے ساتھ کچھ بھی کیا نہ تم سب کو گن گن کر بتاؤں گی یہ مت سوچیے گا کہ آپ کے ظلم و ستم پر منہ بند کر کے بیٹھی رہوں گی ۔ دعا تیزی میں کیا بول کر گئی تھی اسے خود بھی نہیں پتا تھا ۔ جبکہ مصطفی اس کی بات پر شوکڈ ہوکر اسے دیکھ رہا تھا ۔ میں نے کون سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تم پر جو تم گن گن کر سب کو بتانے والی ہو۔ مصطفی نے حیران و پریشان ہو کر پوچھا جبکہ دعا کو اب جواب نہیں سوج رہا تھا ۔ ابھی نہیں توڑے لیکن شادی کے بعد تو توڑیں گے نا ۔ دعا نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا ۔ دعا کیا میں تمہیں ایسا لگتا ہوں ۔تمہیں لگتا ہے کہ میں شادی کے بعد تم پر ظلم کرونگا ۔مصطفی بے یقینی سے پوچھ رہا تھا ۔تو کیا یہ لڑکی اس سے اس حد تک بدگمان تھی ۔ مجھے نہیں پتہ چلیں گھر چلنا ہے دعا یہ کہہ کر کے فلیٹ سے باہر نکل گئی ۔ جبکہ مصطفی کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے خوابوں کے اس چھوٹے سے گھر کو قبرستان بنادے۔ ...................................... شادی کی سب چھوٹی بڑی رسمیں ہو چکی تھی۔۔ اب صرف رخصتی باقی تھی ۔۔ جب دعا نے سعدیہ کے ہاتھوں کھجلی پاؤڈر منگایا ۔۔۔ پہلے تو سعدیہ حیرانگی سے دیکھتی رہی ۔ پھر سوچا اسکی سہیلی ویسے بھی سب سے پنگے کرتی رہتی ہے۔ ۔ تو اب کسی اور کے ساتھ کرنے والی ہوگی ۔۔۔ جب کہ دعا اپنا پلان بہت ہوشیاری سے سوچ رہی تھی ۔۔۔ تمہارے سارے ارمانوں کا جنازہ نہ نکال دیا تو میرا نام بھی دعا نہیں مصطفی صاحب ۔ وہ دل ہی دل میں مصطفی سے مخاطب تھی۔ جبکہ دوسری طرف مصطفی خود ہی اپنی شادی میں سارے کام کر رہا تھا ۔۔ اس کا صرف ایک ہی دوست تھا ولی اور وہ بچارا کیا کیا کرتا ۔اس نے مصطفی کو ساتھ لگاکر سارا کام برابر میں کروایا ۔۔ ۔اب بس مصطفی کا ایک کام بچاتا دعا کو پالر چھوڑنا ۔ مجھے لگ رہا ہے میری شادی نہیں ہے بلکہ میرے کسی کزن کی شادی ہے جس کی شادی میں سارے کام خود کر رہا ہوں مصطفی کافی تھک چکا تھا ۔ ہوتا ہے بھائی میری شادی میں میرا بھی یہی حال ہوگا ولی نے ابھی سے پریشان ہونا شروع کر دیا مصطفی بیٹا دعا کو پالر چھوڑآو چاچی نے آکر کہا جا میرے یار۔ ۔ جا شادی سے پہلے دیداریار کرلے ولی نے لقمہ دیا ۔جس پر مصطفی سر کھجتا باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا گھر سے باہر نکلی اورگاڑی کے قریب مصطفی کو کھڑے دیکھ کر ہنس پڑی یااللہ سوچ کر اتنا مزا آرہا ہے جب یہ میرے سامنے ہوگا توکتنا مزا آے گا اس کی ہنسی مصطفی نے نوٹ کی ۔ کونسا لطیفہ یاد کر کے ہنس رہی ہو مجھے بھی بتاؤ میں بھی ہنسنا چاہتا ہوں مصطفیٰ نے معصومیت سے منہ بنا کر کہا ۔ آپ کو رات کو سناؤں گی شرما کر کہا تو مصطفی کو کرنٹ لگا ۔ مصطفی کو ڈر تھا کہ اس کے لطیفے کا نام مصطفیٰ ہی نہ ہو ۔ کیا پلان کیا ہے تم نے میرے خلاف سچ سچ بتاؤ مصطفی نے فوراً پوچھا ۔ کہا نا رات کو بتاؤں گی دعا ایسی کے انداز میں بولی مہندی نے برا اچھا رنگ چھوڑا ہے تمہارے ہاتھ پہ مصطفیٰ نے اس کی مہندی سے بڑے ہاتھ دیکھے ۔ ہاں میری فرینڈ ز کہتی ہیں کہ ساس بہت پیار کرتی ہے مجھے لیکن میں نے انہیں بتایا کہ وہ تو ہے ہی نہیں تو وہ مجھ سے پیار کیسے کر سکتی ہیں ۔ تمہاری سہیلیوں کے پاس آدھی انفارمیشن ہے ۔مہندی کا رنگ ساس کی محبت کا نہیں شوہر کی محبت کا ہوتا ہے ۔ مصطفیٰ نے اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہا ۔ لیکن وہ بھی دعا تھی کہاں اس کی سننے والی تھی ۔ مصطفی یہاں پر کوئی نہیں ہے ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جتلانے والے اندازlllll سب کچھ ہو چکا تھا مہمان بھی آ چکے تھے ۔ بس کچھ ہی دیر میں مصطفیٰ نے دعا کو پالرسے لینے جانا تھا لیکن جانے سے پہلے وہ سارا کام ختم کرکے جانا چاہتا تھا بیٹا بہت دیر ہو گئی ہے اب تم بھی جاؤ دعا کر لے آؤ بیٹا تمہیں بہت تھکا دیا آج یہ تو سعدیہ اور زعیمہ ضد کرنے لگی کے سارے کام وہ کریں گی اس لیے وہ دعا کے ساتھ پالر نہیں جا پائی ورنہ وہ اسے اپنے ساتھ لے آتی ۔ کوئی بات نہیں چاچی ساری زندگی اس کی ذمہ داری میں نے سنبھالنی ہے اور آج تو ویسے بھی بہت خاص دن ہے شروعات آج سے ہی کرتے ہیں آپ پریشان نہ ہوں میں بس ابھی اسے لے کے واپس آتا ہوں ۔ بابا آپ نے دوالے لی نہ مصطفی نے بابا سے پوچھا ۔ نہیں دعا نے کہا تھا وہ آ کر دے گی ۔ بابا آپ بھی نا آپ اپنی دوائی لیں پلیز میں دعا کو لے کے آتا ہوں ۔ کہا نا میری بیٹی آکر مجھے دوائی دے گی اور ویسے بھی اب یہ سارے کام اس کے ہیں ۔تمہیں مجھ پر حکم چلانے کی ضرورت نہیں ہے میری بیٹی مجھے سنبھال لے گی ۔ مصطفٰی ان کی باتوں پر آہ کے رہ گیا ۔ٹھیک ہے سنبھالتی رہے لے کے آتا ہوں آپ کی لاڈلی کو ۔